Dastur Nazm by Habib Jalib

 



دیپ جس کا محلات ہی میں جلے 

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے 

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے 

ایسے دستور کو صبح بے نور کو 

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 


میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے 

میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے 

کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے 

ظلم کی بات کو جہل کی رات کو 

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 


پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو 

جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو 

چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو 

اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو 

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 


تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں 

اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں 

چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں 

تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر 

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 


حبیب جالب







Post a Comment

0 Comments